کراچی: گلشن مہران ہاؤسنگ سوسائٹی کے الاٹیز نے سندھ ہائی کورٹ کے واضح احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے اور 50 برس گزرنے کے باوجود بھی الاٹیز کو ان کی جائیدادوں پر تعمیر کی اجازت نہ ملنے پر ملیر کنٹونمنٹ بورڈ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔
چیئرمین ایکشن کمیٹی گلشن مہران توفیق الدین صدیقی اور جماعت اسلامی ایئرپورٹ ڈسٹرکٹ چیف نے براستہ جناح ایونیو سپر ہائی وے سے ٹینک چوک تک ریلی کی قیادت کی۔ ریلی میں الاٹیز کی بڑی تعداد نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ شرکت کی۔
ریلی کے شرکا نے مسئلے کے حل کے لیے آرمی چیف اور کور کمانڈر کراچی سے مداخلت اور چیف جسٹس آف پاکستان سے سو موٹو نوٹس لینے کی اپیل کی۔
تفصیلات کے مطابق گلشن مہران کے پلاٹ مالکان کو 50 برس گزرنے کے باوجود بھی ان کی جائیدادوں کا قبضہ نہیں دیا گیا۔ اس سلسلے میں ایکشن کمیٹی نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے پلاٹ مالکان کے حق میں فیصلہ دیا۔ تاہم متعلقہ ادارے نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اس حوالے سے توفیق الدین صدیقی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اصل الاٹیز کی دوسری نسل جوان ہو چکی ہے اور ابھی تک انہیں ان کا حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ہم نے بہت انتظار کیا لیکن اب اپنا حق لینے کے لیے ہر جمہوری طریقہ اختیار کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مالکان اپنے پلاٹوں پر اس لیے مکانات نہیں تعمیر کر سکتے کہ متعلقہ ادارے تعمیراتی نقشوں کی منظوری میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو متعلقہ اداروں کی جانب سے احکامات نہ ماننے پر توہین عدالت کے مقدمے کے لیے از خود نوٹس لینا چاہیے۔
واضح رہے کہ گلشن مہران اسکیم 1968 میں قائم کی گئی تھی۔ مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین کو یہاں پلاٹ دیے گئے تھے۔ پلاٹوں کے قانونی مالکان ان پر قبضے اور تعمیر کے حق کے لیے گزشتہ 50 برس سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک الاٹی حافظ ہارون عالم نے بتایا کہ وہ سعودی عرب میں مقیم تھے۔ 2010 میں پاکستان واپسی پر انہوں نے اپنی خون پیسنے کی کمائی سے گلشن مہران میں سرمایہ کاری کی۔ ہر فرد کی طرح انہوں نے بھی ذاتی گھر کا خواب دیکھا تھا لیکن 13 برس بعد بھی وہ اپنے پلاٹ پر تعمیر شروع نہیں کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے متعدد مرتبہ متعلقہ ادارے اور سوسائٹی مینجمنٹ کو حکم دیا لیکن ابھی تک عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ سوسائٹی درخواستیں وصول کر رہی ہے لیکن ابھی تک نقشوں کی منظوری نہیں دی گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں کے اس متکبرانہ پن سے ان سمندر پار پاکستانیوں کو بہت غلط پیغام مل رہا ہے جو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
ریلی میں موجود ایک اور الاٹی نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے متعدد ملازمین کو یہاں پلاٹ ملے تھے اور ہم اپنے حقوق کے لیے طویل عرصے سے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں اپنی جائیداد سے محروم رکھ کر کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ یہ سفر بہت کٹھن ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔ ہمیں اپنے ملک کے قانون اورعدالتی نظام پر پورا بھروسہ ہے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی ادارے ہماری درخواستوں کو سنیں گے اوراس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔
دوسری جانب گلشن مہران کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پوری زمین ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی تھی اور جنوری 2020 میں بورڈ آف ریونیو سندھ نے اس کے ٹائٹل ڈاکیومنٹس کی تصدیق کی تھی۔ سوسائٹی 600 ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلی ہوئی ہے جب کہ اس میں سے سیکٹر 33 میں موجود 128 ایکڑ پر پی اے ایف کے ساتھ قانونی چارہ جوئی جاری ہے جب کہ لینڈ مافیا نے بھی سوسائٹی کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ کم و بیش 70فیصد پلاٹ 99 سالہ لیز پر ہیں۔
1968 سے متعدد الاٹیز کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی دوسری نسل بھی بوڑھی ہو چکی ہے لیکن ابھی تک قانونی مالکان اپنی جائیدادوں سے محروم ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں