آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں جینیات کے ماہرین نے اسپائنل مسکولر اٹرفی (SMA) کے لئے سب سے پہلی جین تھراپی انجام دی، اور اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے۔
چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے دو سالہ بچے شاویزکو چھ ماہ کی عمر میں اسپائنل مسکولر اٹرفی (SMA) کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس بیماری میں مریضوں کو پٹھوں کی کمزوری، پٹھوں کے تناؤ میں کمی ، محدود نقل و حرکت، سانس کے مسائل، اعصابی و عضلا تی صلاحیتوں میں تاخیر اور اسکولیوسس (ریڑھ کی ہڈی میں خم آنا) اور صحت کے دیگر سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا بہت سے بچے اپنی دوسری سالگرہ سے زیادہ زندہ نہیں رہتے۔
اس خبر نے شاویز کے والدین کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کی بڑی بہن بھی اس بیماری میں مبتلا رہی تھی اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے بچے کی زندگی کےلئے اس کے کیا معنی ہیں۔ "گو کہ ہماری ایک بیٹی کی بھی یہی حالت تھی، کسی ڈاکٹر نے ہمیں کبھی نہیں بتایا کہدوبارہ امید سے ہونے کی صورت میں یہ حالت پھر پیدا ہوسکتی ہے"۔ یہ کہنا تھا شاویز کے والد لیاقت علی غوری صاحب کا۔
یہ بھی پڑھیں: کوکا۔کولا بیوریجز نےسی ایس آر کے تحت پاکستان میں اپنی 30 ویں جدید واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب
اسپائنل مسکولر اٹرفی موروثی بیماریوں کا ایک مجموعہ ہے جو موٹر نیورونز کو جو حرام مغز اور اس سے متصل دماغ کے پچھلےحصے میں موجود عصبی خلیات کو تباہ کردیتا ہے جو انسانی ڈھانچے کے اہم پٹھوں کی سرگرمی کو کنٹرول کرتے ہیں ، جیسے کہ بولنا، چلنا، سانس لینا اور کھانا نگلنا، جو پٹھوں کی کمزوری اور خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں اسپائنل مسکولر اٹرفی کے پھیلاؤ کا تجزیہ کرنے کےلئے معلوماتی مواد کا فقدان ہے ، رشتےداروں کے درمیان شادیاں اس کے پیش آنے کی سب سے زیادہ عام وجہ ہیں۔ عالمی معلوماتی مواد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر دس ہزار میں سے ایک زندہ پیدائش اسپائنل مسکولر اٹرفی سے متاثر ہوتی ہیں جن کے منتقل ہونے کی تعداد ہر پچاس میں تقریباً ایک ہے۔
لیاقت صاحب نے اپنی بیٹی کےمعاملے میں اپنی تحقیق وجستجو کی تھی اور جانتے تھے کہ کہ سنہ 2019 تک علاج کے کوئی طریقہ کار نہیں تھے، جب نوارٹس (Novartis)، ایک عالمی فارمیسیوٹیکل کمپنی نے اس بیماری کے علاج کے لئے ایک جین تھراپی کی دوا بنائی۔ اس دوا کے امریکہ اور یورپ میں مریضوں پر استعمال سے خوش آئند نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔
یہ ایک نئی دوا ہے جس میں اس بیماری کے علاج کے لئے صرف ایک خوراک درکار ہوتی ہے، لیکن اس دوا کی قیمت کئی ملین ڈالرز میں ہے، جو کہ بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہے۔ نوارٹس نے سال میں سو مریضوں کو بلا معاوضہ تھراپی فراہم کرنے کےلئے عالمی طور پر اس دوا تک رسائی کے لئے ایک منظم پروگرام پیش کیا ۔ شاویز نوارٹس کی طرف سے منتخب کیا گیا یہ دوا حاصل کرنے والا ایک ایسا خوش قسمت مریض تھا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا امیدوار بن گیا۔
ڈاکٹر سلمان کرمانی، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چیئر، ڈویژ ن آف ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ، آغا خان یونیورسٹی اور ان کی ٹیم نے شاویز کو جون سنہ 2020 میں دیکھا تھا جب وہ ڈیڑھ سال کا تھا اور اس کے لئے نوارٹس کے منظم رسائی پروگرام کا حصہ بننے کی درخواست دے دی۔ جلد ہی انہیں دوا کے لئے نامزدگی حاصل ہوگئی۔ ڈاکٹر کرمانی کی ٹیم نے اگلے چھ مہینے عملے کی ٹریننگ میں گزارے، دوا حاصل کرنے کے لئے اداروں کے ساتھ کام کیا اور یہ تجزیہ کرنے کے لئے کہ اگر شاویز دوا حاصل کرنے کے لائق ہے ، ضروری ٹیسٹس بھی کئے۔
شاویز کو اس کی دوسری سالگرہ سے ایک دن پہلے یہ دوا دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ باقاعدہ طور پر مشاورت کر رہا ہے اور اس نے نمایاں بہتری ظاہر کی ہے۔ آغاخان یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر پر امید ہیں کہ آنے والے سالوں میں وہ مزید بہتری دیکھنا جاری رکھیں گے ۔
یہ خبر انگریزیہ میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
ایک تبصرہ شائع کریں